بیٹھے بٹھائے غم میں گرفتار ہو گیا
گوشہ نشیں تھا ، رونق بازار ہو گیا
کل بے وفا تھا آج وفادار ہو گیا
اچھا ہوا کہ صاحبِ اسرار ہو گیا
دو گز زمین مل ہی گئی اُس غریب کو
مرنے کے بعد وہ بھی زمیندار ہو گیا
بس یہ ہوا کہ آپ کی زلفوں کی یاد میں
منزل کا راستہ ذرا ہموار ہو گیا
رہتے رہے ہیں آپ جہاں وہ مکانِ دل
مدت ہوئی حضور! کہ مسمار ہو گیا
یوں مسکرائی آج وہ چشم شراب ریز
مجھ جیسا پارسا بھی قدح خوار ہو گیا
مجبور کس قدر تھا میں نازؔ اُس کے سامنے
اِنکار کر رہا تھا ، پر اقرار ہو گیا
شوکت علی نازؔ