Site icon Shaur

غربت دلاسوں کا نام


سوگۓ بچے اک غریب ماں کے جلدی جلدی
ماں بولی تھی فرشتے آتے ہیں خواب میں روٹی لے کے

وہ پیٹ پہ پتھر باندھےچلتے رہتے ہیں
جن ہاتھوں سے تاج محل بنتے رہتے ہیں

جن کو سایہ نہیں میسر کڑی دھوپ میں
یہی ہیں درخت جو سایہ کرتے رہتے ہیں

ان چراغوں میں روشنی نہیں ہوا کرتی
یہ لوگ اپنی ہی آگ میں جلتے رہتے ہیں

خاب کیا سجائیں یہ مفلس یا الہی
ان کی آنکھوں میں اشک بہتے رہتے ہیں

نہ چھیڑ انہیں تو اے تہذیب زمانہ
یہ لوگ ہر اک سے الجھتے رہتے ہیں

میں دروازے میں کھڑا دیکھ لیتا ہوں عرفان
میرے دوست جب گلی سے گزرتے رہتے ہیں

عرفان علی

So Gaye Bachay Ik Greeb Maa Kay Jaldi Jaldi
Maa Boli Thi Frishtay Atay Hen Khvab Mein Roti Lay Kay


Exit mobile version