Site icon Shaur

بلھا کیہ جاناں میں کون


اسٹیج پر فقیر محمد کا نام پکارا گیا تو وہ آہستہ سے اٹھ کر سٹیج کی طرف چل دیا فقیر محمد شکل سے بھی فقیر ہی لگتا تھا غربت اس کے چہرے پہ گویا چسپاں تھی ایک مل میں کام کرتا تھا اور تنخواہ کی چرس پی جاتا یا تھوڑا بہت گھر دے دیتا تنخواہ میں گزاراہ کہاں ہوتا بھلا تو کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے ادھار مانگتا تھا
اب تو لوگ ادھار بھی نہیں دیتے تھے اسے
دو بچے اور بیوی تھی
بیوی صابر تھی جو بھی دے دیتا اسی میں گزارہ کر لیتی
وہ سٹیج کی طرف چلا تو لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئی ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ یہ اس بار بھی انکار کردیگا یہ مل مالکان کی طرف سے ہر سال کسی ایک خوش نصیب ورکر کو حج پہ بھیجنے کی تقریب تھی جس میں پچھلے دو سال کی طرح اس سال بھی فقیر محمد کا نام ہی آیا تھا پچھلے دو سال حج پہ جانے کی بجاۓ فقیر محمد نے حج کے خرچ کے پیسے لے لیے تھے اور اس سال پھر اسی کا نام نکل آیا تھا
اس چرسی کے نصیب میں بھلا اللہﷻ کے گھر کی زیارت کہاں؟
یہ حاجی وحید حسن تھا جو اپنے کولیگز کو کہ رہا تھا
حاجی وحید چھ ماہ پہلے عمرہ کرکے آیا تھا اور اب اپنے نام کے ساتھ حاجی بھی لکھتا تھا۔
حالانکہ حاجی صاحب وہاں جاکر آنے کو دل ہی نہیں کرتا کسی کا بھی اور یہ بدقسمت جانے کی بجاۓ پیسے لےلیتا ہے
یہ شیخ ایوب تھا جو حاجی وحید سے مخاطب تھا یہ بھی عمرہ کر چکا تھا
اور شاید جتانا چاہ رہا تھا کہ میں بھی “حاجی” ہوں
فقیر محمد اسٹیج پہ پہنچ چکا تھا-

مل مالک شیخ عمر نے اسے مبارک باد دی اور کہا بھئ فقیر محمد تیاری کر لو
فقیر محمد نے ایک نظر اپنے کولیگز پر ڈالی اور
آہستہ سے بولا
میں حج پر نہیں جاؤنگا
مجھے پیسے دے دیں
وہاں موجود تمام لوگوں کو شاید اسی جواب کی توقع تھی
کسی کے چہرے پر بھی حیرانگی نہیں تھی
شیخ عمر زرا سا مسکراۓ اور بولے
اس دفعہ تو ہر صورت تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا فقیر محمد
جناب میں کیا کرونگا حج پہ جا کے؟
آپ مجھے پیسے دے دیں
فقیر محمد نے دھیمی سی آواز میں کہا
نہیں فقیر محمد اس بار تمہیں حج پہ جانا ہی ہوگا شیخ عمر بھی گویا اسے بھیجنے کا تہیہ کرچکے تھے
مگر فقیر محمد کا ایک ہی جواب تھا
جناب میں کیا کرونگا جاکر
میں گنہگار آدمی ہوں چرسی ہوں میرا کیا کام وہاں؟
اور ویسے بھی صاحب جی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے
ٹھیک اگر تم حج پر جاؤ تو پورے سال کی تنخواہ بونس کے طور پہ دونگا
شیخ عمر نے آفر کی تو فقیر محمد کی آنکھوں میں چمک سی آگئی
کہنے لگا ٹھیک ہے صاحب میں راضی ہوں
شیخ عمر بولے دیکھو تین سال سے مسلسل تمہارا ہی نام نکل رہا ہے اور جانہیں رہے اللہﷻ پاک ہر صورت تمہیں بلانا چارہا ہے
روانگی کا دن آگیا سال کی تنخواہ فقیر محمد لے چکا تھا
گھر والوں اور جو ایک دو جاننے والے تھے ان سے مل کر فقیر محمد حج پہ روانہ ہوگیا
حج کیا روضہ رسولﷺ پہ حاضری دی حج مکمل کر کےدو دن بعد فقیر محمد کی واپسی تھی مگر آنے سےایک دن پہلے ہی مکہ مکرمہ میں اس کا انتقال ہوگیا
اس کے گھر اطلاع دی گئی اور اس کی بیوی سے اجازت لیکر اس کو دنیا کے دوسرے بہترین قبرستان جنت المعلی مکہ میں دفن کردیا گیا
جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب
مگر کیسے؟ ایسا کیا عمل تھا اس کا؟
کچھ دن بعد مل مالک شیخ عمر فقیر محمد کی بیوی کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو اس کی بیوی سے پوچھا بہن ایس کونسا عمل تھا اس کا کہ
تین سال مسلسل اسی کا نام نکلا گیا تو دفن بھی وہیں ہوا-
اس کی بیوی نے کہا صاحب جی،
میں اور تو کچھ نہیں جانتی مگر ایک عمل اس کا جانتی ہوں شاید اسی کے سبب یہ رتبہ ملا ہو اسے
کہنے لگی ہمارے محلے میں ایک جوان بیوہ ہے اس کی تین چھوٹی بچیاں ہیں جب اس کا خاوند فوت ہوا تو وہ بےچاری لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی وہ عزت دار عورت ہے اور یہ بھیڑیوں کا معاشرہ
ہر جگہ اسے لوگوں کی ہوس کی وجہ سے کام چھوڑنا پڑا اس نے بھوک قبول کرلی مگر عزت کا سودا نہیں کیا
میرے خاوند کو پتہ چلا تو اس نے اس بیوہ عورت کو اپنی بہن بنا لیا اور اس کے گھر کا سارا خرچ دینے لگا میرے شوہر کی تنخواہ میں دو گھروں کا گزارہ مشکل تھا اور وہ نشہ بھی کرتا تھا تووہ ادھار لیکر جیسے بھی کسی سے لوٹ کھسوٹ کر اس کو خرچہ ضرور دیتا تھا
دو بار حج پہ نہ جانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ پیچھے اس بیوہ عورت اور اس کی بچیوں کا خیال کون رکھتا اس نے دو بارحج کے پیسے لیکر بھی ان کو ہی دیے اور کچھ مجھے
وہ اس بار نہیں جاتا اگر آپ اسے پورے سال کی تنخواہ نہ دیتے
اس نے پیسے لیکر کچھ گھر کا سامان لیا اور کچھ اس عورت کو لیکر دیا تب وہ حج پہ گیا
شیخ عمر کا دل چاہ رہا تھا کہ فقیر محمد اس کے سامنے ہوتا تو وہ اس کے ہاتھ چومتا
وہاں سے وہ اس بیوہ عورت کے گھر گئے
اس نے بتایا کہ لوگوں کی نظروں میں چرسی شرابی میرے اور میری بچیوں کے لیے فرشتہ تھا
کہنے لگی وہ کہتا تھا بہن میرے لیے دعا کردیا کرو بس
اور میں اس کے لیے ایک ہی دعا کرتی تھی
یا اللہﷻ میرے اس بھائی کو ایمان پہ موت دینا
یتیموں کے سر پہ ہاتھ رکھنے سے جتنے بال ہاتھ نیچے آتے ہیں اتنے گناہ معاف ہوتے اتنی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اتنے ہی درجات بلند ہوتے ہیں
کسی کی ظاہری حالت سے اس کے اعمال کو مت جانچو-

BULHA KI JANA MAIN KON


Exit mobile version