عمر کی شام ہوئی اور میں پیاسا مولا

شام اور پیاسا

عمر کی شام ہوئی اور میں پیاسا مولا اب تو دریا، کوئی جھرنا، کوئی برکھا مولا رُت کوئی صورتِ مرہم بھی میسر آتی داغ رہ جاتا مگر زخم تو بھرتا مولا بے مداوا جو رہا کل بھی بھری دنیا میں اب بھی رِستا ہے وہی زخمِ تمنا مولا دائم آباد رہیں شہر تیرے، گاؤں تیرے مزید پڑھیں